سلطان العاشقین کی اہلِ بیتؓ سے محبت و عقیدت
تحریر: مسز سحر حامد سروری قادری۔ لاہور
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخ ِ کامل ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس موجودہ دور میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ورثۂ فقر کو زمانے بھر میں عام فرما رہے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس کی اہل ِ بیتؓ سے محبت و عقیدت کو الفاظ میں بیان کرنا بے حد مشکل ہے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ، آپ کے الفاظ، آپ کاکردار مبارک،آپ کی تعلیمات الغرض ہر چیز میںاہل ِ بیتؓ سے محبت و عقیدت کا عمیق سمندر دکھائی دیتا ہے جسے کوزے میں بند کرنا بندۂ بشر کے لیے ممکن نہیں ۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اپنی پوری حیاتِ کاملہ کو اہل ِ بیتؓ کا کرم گردانتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی اہل ِ بیت ؓسے محبت ازلی ہے کیونکہ آپ کی والدہ ماجدہ ذکر فر ماتی ہیں کہ پیدائش سے قبل جب آپ ان کے بطن مبارک میں تھے تو آپ کی والدہ کا درود پاک پڑھنے کا بہت دل چاہا کرتا تھا۔ گھنٹوں درود پاک کی تسبیح مبارک پڑھا کرتی تھیں اور اس شدت سے اہل ِ بیتؓ سے محبت و عقیدت کا جذبہ دوسری اولاد کی مرتبہ محسوس نہ ہوا تھا۔ آپؒ فرماتی تھیں کہ مجھے تب معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں بہت خاص ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا رجحان بچپن سے ہی دین ِ اسلام اور اس کی حقیقی تعلیمات کی طرف تھا۔ لڑکپن میں والدین کے ہمرا ہ عید میلاد النبیؐ اور یومِ عاشورہ کے موقع پر محافل میں محبت و عقیدت کے ساتھ شرکت فرمایا کرتے تھے۔ اہل ِ بیت ؓ کے ذکر پرادب سے نظریں جھکا دیا کرتے تھے۔ جیسے جیسے آپ مدظلہ الاقدس جوان ہوتے گئے اہل ِ بیتؓ کے لیے محبت اور راہِ حق کی جستجو میں اضافہ ہوتا گیا ، آپ کا دل ہر وقت بے چین رہتا تھا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آ گیا جب آپ مدظلہ الاقدس ہر لمحہ عشق ِ مصطفی ؐ سے سرشار رہتے اور درود و سلام کی تسبیح فرماتے رہتے۔ 500 دانوں کی خاص تسبیح بنوائی اور اس پراتنا ذکر کیا کہ آپ مدظلہ الاقدس کی انگشت ِ شہادت پرتسبیح کی وجہ سے گٹھا پڑ گیا۔
مارچ 1997ء کا واقعہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ایک کتاب میں یہ عبارت پڑھی ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سیّدۃالنساء حضرت فاطمہ ؓ کو کبھی انکار نہیں فرماتے تھے حتیٰ کہ جب امہات المومنین ؓمیں سے کسی کو خدشہ ہوتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی کسی بات کو منظور نہ فرمائیں گے تو سیدۂ کائنات ؓکے وسیلہ سے وہ معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی بارگاہ میں پیش فرماتیں تو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام اسے منظور فرما لیتے‘‘۔ اس عبارت کو پڑھنے کے بعد آپ مدظلہ الاقدس روزانہ جتنی بھی عبادت فرماتے اس کا ثواب سیّدہ کائنات حضرت فاطمہؓ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمینؓ کی بارگاہ میں ہدیہ فرماتے اور یہ دعا کرتے:
’’یا سیّدہ کائنات !ؓ آپ کا یہ گنہگار غلام آپؓ کی بارگاہ میں اپنی معمولی سی عبادت کا نذرانہ پیش کر رہا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ آپ ؓ کو ہماری عبادت کے ثواب کی حاجت نہیں ہے۔ ہم تو خود آپؓ کے گھرانہ کی شفاعت اور کرم کے محتاج ہیں۔یہ ثواب تو صرف ایک گدا کی آپؓ کے در پر صدا ہے۔جس طرح ظاہری حیات میں کوئی سوالی آپؓ کے در پر حاضر ہوکر صدا دیتا اور خالی ہاتھ نہ جاتا تھا اسی طرح باطنی حیات میں بھی یہ گدا آپؓ کے در سے خالی نہ جائے گا۔ آپ رضی اللہ عنہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں میری سفارش فرمائیں کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اس غلام کو وہ راہ عطا فرمائیں جس راہ پر چلنے والوں پر اللہ کا انعام ہوااور مجھے یقین ِ کامل ہے کہ یہ گدا آپؓ کے در سے خالی واپس نہیں جائے گا کیونکہ گدا کو خالی ہاتھ واپس جانے دینا آپؓ کے گھرانے کی رِیت ہی نہیں ہے۔‘‘ چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ یہی دعا آپ مدظلہ الاقدس کی زندگی کا حصہ بن گئی۔ صرف ایک ماہ کا عرصہ گزرا تھا آپ مدظلہ الاقدس نمازِ تہجد کے بعد درود پاک پڑھ رہے تھے کہ باطن کا در کھل گیا اور آپ مدظلہ الاقدس نے خود کو باطنی طور پر مسجد ِ نبویؐ میں مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پایا۔ وہاں پر تمام اہل ِ بیتؓ، خلفائے راشدین اور چاروں سلاسل کے مشائخ موجود تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ مدظلہ الاقدس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں بٹھا دیااور عرض کی ’’حضورؐیہ نجیب الرحمن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غلام ہے، یہ آپؐ کی نورِ نظر لخت ِ جگر (خاتونِ جنتؓ) کا نوری فرزند ہے اور انہوں نے اس کو اپناورثہ عطا کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس مقصد کے لیے آپؐ کی بارگاہ میں بھیجا ہے۔‘‘
آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ مدظلہ الاقدس کو اپنا نوری حضوری فرزند اور وارث قرار دیا اور آپ کو خرقۂ فقر عطا فرمایا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اہل ِ بیتؓ سے آپ کی محبت و عقیدت بہت پُر خلوص تھی کہ آپ مدظلہ الاقدس کو آقائے دوجہان، مختارِ کل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزھراؓ نے اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا۔
آپ مدظلہ الاقدس اہل ِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ سے محبت کو ایمان کی شرطِ اوّل قرار دیتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں ’’اہل ِ بیتؓ و صحابہ کرامؓ کے بارے میں ذرا سی غلطی اور دل میں معمولی سا غلط خیال ایمان کو سلب کردیتا ہے۔‘‘
نذرانہ اہلِ بیتؓ کے لیے علمی و قلمی خدمات
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنی تمام تر تصنیفات اور تعلیمات میں اہل ِ بیتؓ سے محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ماہنامہ سلطان الفقر لاہور میں بھی اہل ِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ سے محبت و عقیدت کا اظہار فرماتے ہوئے ان کے فضائل سے اُمت ِ مسلمہ کو آگاہ کیا ہے۔آپ مدظلہ الاقدس نے’’ فضائل اہل ِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ ‘‘ کے نام سے بہترین کتاب تصنیف فرمائی۔ اس تصنیف ِ لطیف میں آپ مدظلہ الاقدس نے فضائل اہل ِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کوقرآن و حدیث کی روشنی میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اس کتاب سے ہر مسلک اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اہل ِ شعور حضرات کے دل ہر قسم کے بغض اور فتنہ وفساد سے پاک ہوکر اہل ِ بیتؓ و صحابہ کرامؓ کے عشق و محبت سے گداز ہوجاتے ہیں۔ گویا یہ کتاب آپ مدظلہ الاقدس کے عشق ِ اہل ِ بیتؓ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں جو عظیم معرکہ ٔ حق سر انجام دیا اس پر آپ مدظلہ الاقدس نے حقائق ِ واقعہ ٔ کربلا پر مبنی کتاب ’’امام حسینؓ اور یزیدیت‘‘ تصنیف فرمائی جو طالبانِ مولیٰ کے لیے عظیم راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں نہایت محبت و عقیدت سے امامِ پاک سیّدنا حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی اورمومنین کے لیے تسلیم و رضا کے بہترین سبق کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین میں سے ایک نے آپ مدظلہ الاقدس کی راہنمائی اور نگاہِ کرم سے حضرت امام حسین ؓکی کتاب ’مرآۃ العارفین‘ کا ترجمہ اور شرح کی جو کہ طالبانِ مولیٰ اور متلاشیانِ صراطِ مستقیم کے لیے بہترین راہنما ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس امامین پاکؓ کا بے حد و بے پناہ احترام فرماتے ہیں اور ان سے اس قدر محبت فرماتے ہیں کہ خود کو انکا غلام قرار دیتے ہیں۔
کتاب ’’خلفائے راشدین‘‘ میں آپ مدظلہ الاقدس نے بہت خوبصورت انداز میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امام حسنؓ کی شان اور مقام کو بیان فرمایا ہے۔
عام طور پر لوگوں میں تصور پایا جاتا ہے کہ خلفائے راشدین کی تعداد چار ہے یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر دورِ خلافت اختتام پذیر ہو گیا لیکن سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے نہایت احسن طریقہ سے اس کتاب میں احادیث کی روشنی میں بیان فرمایا ہے کہ حضرت امام حسن ؓ خلیفہ راشد پنجم ہیں اور آپ رضی اللہ عنہٗ کی شان مبارک کو بیان فرمایا ہے۔
روحانی محافل کا انعقاد
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہر سال 12 ربیع الاول کو میلاد شریف بہت شاہانہ انداز میں منعقد فرماتے ہیں۔ اسی طرح 10 محرم الحرام کو حضرت امام حسینؓ کی یاد میں محفل منعقد فرماتے ہیں اور خود اس کی صدارت فرماتے ہیں۔ اس محفل میں طالبانِ حق کو حضرت امامین پاکؓ سے محبت و عقیدت کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے اور ان کی عظیم قربانی کا مقصد باور کرایا جاتا ہے۔ محافل میں خصوصی طور پر حضرت فاطمہؓ اور باقی تمام اہل ِ بیتؓ پر سلام پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے یومِ شہادت پر خانقاہ سلسلہ سروری قادری میں محفل کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مناقب و فضائل حاضرین کے گوش گزار کئے جاتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس اتوار کے روز ہونے والی محافل میں بھی اہل ِ بیت ؓسے اپنی محبت و عقیدت کا بارہا اظہار فرماتے ہیں اور طالبانِ حق کو ہمیشہ حضرت فاطمہؓ کا بلند و بالا مرتبہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت و فقر اور امامین پاکؓ کی قائم کردہ تسلیم و رضا کی بہترین مثال دے کر تلقین و ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’راہِ حق میں تسلیم و رضا کی جو مثال حضرت امام حسینؓ نے قائم کر دی ہے وہ رہتی دنیا تک طالبانِ مولیٰ کے لیے راہنما ہے۔بہت ہی کم لوگ ہیں جو آپؓ کی اس عظیم قربانی کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح آپ مدظلہ الاقدس نے ایک محفل میں فرمایا’’جو اہل ِ بیتؓ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دشمن ہے وہ بے شک اللہ کا دشمن ہے۔‘‘ آپ مدظلہ الاقدس جب بھی اہل ِ بیتؓ کا ذکر فرماتے ہیں تو محبت و عقیدت سے آپ کی آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں۔
دورِ جدید اور سلطان العاشقین کی محبت اہلِ بیتؓ
موجودہ زمانہ ظاہر پرستی اور نفسا نفسی کا زمانہ ہے۔ ایسے میں لوگوں نے دین ِ اسلام کی اصل تعلیمات کو ردّ کر کے محض مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ گمراہی کے اس دور میں آپ مدظلہ الاقدس ایک آفتاب بن کر طلوع ہوئے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے دورِ جدید کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ان کے مطابق عوام الناس کی راہِ حق کی جانب راہنمائی فرمائی ہے اسی لیے آپ مجددِ دین بھی ہیں کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس نے اہل ِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور مشائخ سروری قادری کے مقام سے آج کے انسان کو جس طرح آگاہ کیا وہ اب سے پہلے نہ ہوا تھا۔ بے شمار کتب، رسالہ جات، ویب سائٹس، بلاگز الغرض ہر ذریعے سے لوگوں تک اہل ِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور مشائخ ِ عظام کی شان، مقام اور تعلیمات پہنچائیں۔
حاصل تحریر:
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی اہل ِ بیتؓ سے محبت و عقیدت آپ کے اعمال و افعال اور تعلیمات سے واضح ہے کیونکہ اہل ِ بیتؓ کی خدمت میں جو نذرانۂ عقیدت آپ نے پیش کیا اس کی مثال نہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے بے راہ روی کے اس دور میں بھی دین ِ اسلام کی حقیقی روح فقر ِ محمدی ؐ کا عَلم بلند کیا ہے اور اہل ِ بیتؓ کی حیاتِ طیبہ اور قربانیوں کا تذکرہ اس انداز سے کیا ہے کہ وہ رہتی دنیا تک آنے والے طالبانِ مولیٰ کے لیے رہنمائی کا بہترین ذریعہ بن گئے ہیں۔ بے شک سلطان العاشقین نے نوری فرزند ہونے کا حق بخوبی نبھایا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس نے اپنے مریدین کی جب بھی رہنمائی فرمائی تو اہل ِ بیتؓ کی مثال ضرور دی ۔ان کی زندگیوں اور ان کی تعلیمات کی مثال دے کر ان کے نقش ِ قدم پر چلنے کی تلقین فرمائی کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس خود اہل ِ بیتؓ کی محبت کا ایسا پیکر ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس نے حضرت فاطمہؓ سے فصاحت و بلاغت، خندہ پیشانی اور صبر ِ جمیل جیسے کئی اوصاف پائے۔ بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے شجاعت اور مردِ کامل کی صفات پائیں اور حضرت امام حسنؓ و حسینؓ سے تسلیم و رضا کی عظیم نعمت پائی کہ آپ کے مرشد سلطان الفقر ششم کا فرمان ہے ’’نجیب بھائی کا تو یہ حال ہے کہ سر ِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے‘‘۔
تحریک دعوتِ فقرآپ کو دورِ حاضر کے انسانِ کامل مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بیعت و صحبت کی دعوت دیتی ہے ۔ اللہ ہم سب کو آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت میں اہل ِ بیتؓ کی محبت اور رضا حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین