شب ِ قدر |Shab-e-Qadr


شب ِ قدر

تحریر: میمونہ اسد سروری قادری ۔ لاہور

شب ِ قدر یعنی قدر والی، عزت والی، حرمت والی، احترام والی رات۔ یہ اس قدر عزت والی رات ہے کہ اس کی تعریف و توصیف اللہ پاک نے خود فرمائی اور اِس کی شان میں قرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں سورۃ القدر نازل فرمائی۔ یہ سورۃ مبارکہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس میں پانچ آیات اور ایک رکو ع ہے ۔
اِنَّآ  اَنْزَلْنٰہُ  فِیْ  لَیْلَۃِ  الْقَدْرِ۔ وَ مَآ  اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ  الْقَدْرِ ۔ لَیْلَۃُ  الْقَدْرِلا۵ خَیْرٌ  مِّنْ  اَلْفِ شَہْرٍ۔ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ  فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ ج مِنْ کُلِّ  اَمْرٍ۔  سَلٰمٌ قف ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ  الْفَجْرِ۔
ترجمہ: بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب ِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں (کہ) شب ِ قدر کیا ہے۔ شب ِ قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل ؑ) اپنے ربّ کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
یہ شب ِ اپنے اندر اس قدر رحمتیں رکھتی ہے کہ تمام اُمت کی بخشش کے لیے کافی ہے ۔ اس شب میں رو ح الا مین حضرت جبرائیل ؑ فرشتو ں کے جھرمٹ میں اُترتے ہیں اور جو لوگ مصروفِ عبادت و ذکر اذکار ہوں اُن سے مُصافحہ کرتے ہیں۔ اِس رات کو اللہ پاک نے بارہ مہینوں میں سے ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ رکھا جبکہ شب ِ برات جو کہ فضیلت والی راتوں میں سے ایک رات ہے‘ اسے ظاہر کر دیا۔ شب ِ قدر اللہ کی طرف سے اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے اُن کی اُمت پر رحمتوں کا نزول ہے ۔ اس رات کو اس لیے پوشیدہ رکھا گیا تاکہ اُمت اس کو تلاش کرنے کے لیے کوشش ومحنت کرے اور عبادت میں مشغول رہے۔
سورۃ القدر میں اِس شب کی عبادت کو یا اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔ہزار مہینوں کو اعداد و شمار کے مُطابق دیکھا جائے تو تراسی (83)سال اور چار (4) مہینے بنتے ہیں اور یہ ہزار مہینوں سے کتنی زیادہ فضیلت والی رات ہے یہ صرف اور صرف اللہ پاک کی ذاتِ مبارکہ ہی بہتر جانتی ہے ۔
لیلۃ القدر کے وجہ نزول کے متعلق چند روایات تحریر کی جا رہی ہیں:
موطا امام مالک میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سابقہ امتوں کی طویل عمروں کے بارے میں آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بارگاہِ اقدس میں اپنی امت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا فرمائی کہ اے میرے ربّ! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم رہ جائیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب ِ قدر عطا فرمائی۔
ابن ِ عباسؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی امت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی کہ اے میرے ربّ! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب ِ قدر عطا فرمائی۔(تفسیر الخازن)

لیلۃ القدر رمضان المبارک کی کونسی شب ہوتی ہے اس کے متعلق مختلف روایات ہیں۔
حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے حجرے سے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کو شب ِ قدر بتانا چاہتے تھے (کہ وہ کونسی رات ہے)۔ اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب ِ قدر بتلاؤں مگر فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو میرے دل سے اُٹھا لی گئی اور شاید اسی میں تمہاری کچھ بہتری ہو۔ (تو اب ایسا کرو کہ) شب ِ قدر کو رمضان کی پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویںراتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری49)
مختلف صحابہ کرامؓ سے روایت ہے کہ لیلۃ القدر27 رمضان کی شب ہے تاہم مختلف لوگوں نے اسے دیگر طاق راتوں میں بھی پایا ہے۔ یعنی یہ رات رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے اور یہ اِس لیے تاکہ اُمت ِمسلمہ اِس کو تلاش کرنے کے لیے کوشش اور عبادت میں مشغول رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’شب ِ قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو‘‘۔ (صحیح بخاری 2017)
حضرت ابو سلمہؓ فرماتے ہیں کہ میں ابوسعید خدریؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں۔ سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں کریں گے۔ چنانچہ آپؓ تشریف لے چلے۔ حضرت ابو سلمہؓ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب ِ قدر کے متعلق اگر آپؓ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سناہے تو اسے بیان فرمائیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے ۔لیکن حضرت جبرائیل ؑ نے آکر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس کی تلاش میں ہیں وہ (شب ِ قدر) آگے ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبرائیل ؑ دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جس کی تلاش میں ہیں وہ (رات) آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے کیونکہ شب ِ قدر مجھے معلوم ہوگئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خواب میں خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔‘‘ ان دنوں مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی۔ مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کااثر دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خواب سچا ہو گیا۔ (صحیح بخاری 813)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چند اصحاب کو شب ِ قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب آخری سات تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اِس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے‘‘۔ (صحیح بخاری 2015)
لیلۃ القدر میں ہم اللہ پاک کی بے حد وبے شمار رحمتیں، نعمتیں اور مغفرتیں سمیٹ سکتے ہیں کیونکہ اللہ پاک ہمیں بیشمار ایسے مواقع فراہم کرتا ہے اور ماہِ رمضا ن میں خاص کر آخری عشرہ میں اللہ پاک کا فضل مومن و مسلمان مرد و خواتین کے لیے خاص طو ر پر بے قرار ہوتا ہے۔ اللہ پاک چاہتا ہے کہ ہم اس سے مغفرت طلب کریں اور وہ ہما ری مغفرت فرمائے۔

شب ِ قدر کی نشانیا ں

1۔ شب ِ قدر معتدل ہوتی ہے۔ یہ رات نہ گرم ہوتی ہے اور نہ ہی ٹھنڈی۔
2۔اس رات بارش بھی ہوسکتی ہے۔
3۔اس رات کی صبح سورج کی کرنیں کمزور اور سرخی مائل ہوتی ہیں۔
4۔یہ رات نورانی ہوتی ہے۔
5۔آسمان سے شیطان کو ستارے نہیں مارے جاتے۔
6۔درخت سجدے میں جھک جاتے ہیں۔
7۔اس رات میں کڑوا پانی میٹھا ہو جاتا ہے۔
8۔اس رات میں کُتے اور گدھے کم بھونکتے اور بولتے ہیں۔
یہ تمام علامات صوفیا اور علما حق کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہیں۔

شب ِ قدر کی دُعا

حضرت عائشؓہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ یا رسولؐ اللہ! اگرمجھے شب ِ قدر کا پتہ چل جائے توکیا دُعا ما نگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (ترمذی، ابن ِ ماجہ)
ترجمہ: اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان المبا رک میں خصوصاً آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے او ر اسے پالینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہر سو جہاں میں رحمت و برکت سی چھائی ہے
اُٹھ جاؤ مومنو کہ شب ِ قدر آئی ہے
توبہ کرو گناہوں سے سجدے میں رہو تم
جو دِل میں دبے درد ربّ سے کہو تم
لگتا ہے آج جوش میں پوری خدائی ہے
اُٹھ جاؤ مومنو کہ شب ِ قدر آئی ہے

Click to rate this post!
[Total: 0 Average: 0]

3 تبصرے “شب ِ قدر |Shab-e-Qadr

  1. شب ِ قدر یعنی قدر والی، عزت والی، حرمت والی، احترام والی رات۔ یہ اس قدر عزت والی رات ہے کہ اس کی تعریف و توصیف اللہ پاک نے خود فرمائی۔ سورۃ القدر میں اِس شب کی عبادت کو یا اس رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے ۔
    https://www.dailymotion.com/video/x6ki79a

اپنا تبصرہ بھیجیں