شان سات سلطان الفقر
(shan-sultan-ul-faqr)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی اہم ترین تصنیف رسالہ روحی شریف میں سلطان الفقر ارواح کی عظمت، اوصاف اور شان (shan-sultan-ul-faqr) بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بدان کہ چوں نورِ احدی از حجلہِ تنہائی وحدت بر مظاہرِ کثرت ارادہ فرمود‘ حُسن ِخود را جلوہ بصفائی گرم بازاری نمود ۔بر شمع جمال پروانۂِ کو نین بِسوزِید و نقاب ِمیمِ احمدی پوشیدہ۔ صُورتِ احمدی گرفت واز کثرت ِجذبات و ارادات‘ ہفت بار بَر خودبجنبید واَزاں ہفت ارواحِ فُقرا باصفا ‘ فنا فی اللہ‘ بقا با للہ‘ محو ِ خیالِ ذات‘ ہمہ مغز بے پوست‘ پیش از آفرینشِ آدم علیہ السّلام ہفتاد ہزار سال غرقِ بحرِ جَمال بر شجرِمرآۃالیقین پیدا شُد ند ۔ بجز ذات ِحق از ازل تا ابد چیزے نہ دیدند و ماسویٰ اللہ گاہے نشَنُیدند ‘ بحریم کبریا ‘ دائم بحر الوصال لازوال‘ گاہے جَسدِ نُوری پوشیدہ بہ تقدیس وتنزیہّ می کوشیدند و گاہے قطرہ در بحر و گاہے بحر در قطرہ ‘ ورِدائے فیضِ عطا ’’اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَاللّٰہُ‘‘بَر اِیشان۔ پَس بحیات ِ ابدی و تاجِ عزِّ سرمدی ’’الْفَقْرُ لاَ یُحَتَاجُ اِلیٰ رَبِّہٖ وَلاَ اِلیٰ غَیْرِہٖ‘‘ معزز و مکرّم‘ از آفرینشِ آدم علیہ السلام و قیامِ قیامت ہیچ آگاہی ندارند وقدمِ ایشاں بَرسرِ جملہ اولیاء وغوث و قطب۔ اگر آنہار اخُدا خوانی بجاوَاگر بندۂِ خدا دانی روا ۔عَلِمَ مَنْ عَلِمَ‘مقامِ ایشانِ حریم ِذات ِ کبریا و از حقّ ماسویٰ الحق ّ چیز ے نا طلبید ند و بَدُ نیائے دنی و نعیمِ اُخروی، حورو قصور ِبہشت، بکرشمہِ نظر ندیدند و ازاں یک لمعہ کہ موسیٰ علیہ السلام در سراسیمگی رفتہ و طُور درہم شکستہ ‘در ہر لمحہ و طرفتہ العین ہفتاد ہزار بار لمعات ِجذباتِ انوارِ ذات بر ایشاں وارد و دم نہ زدند و آہے نہ کشیدند وَ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد می گفتندوایشاں سلطان الفقر و سیّد الکونین اند ۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂِ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت ) میں ظہور کا ارادہ فرمایا ‘ تو اپنے حسن کی تجلّی سے رونق بخشی ‘ اِس کے حسنِ بے مثال اور شمع جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اختیار کی پھر جذبات اور ارادت کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ ‘بقا بااللہ تصورِ ذات میں محو ‘ تمام مغز بے پوست حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سا ل پہلے ‘ اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں ۔انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا ۔وہ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں ۔کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں’ اور اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَاللّٰہُ(جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے)کے فیض کی چادر ان پر ہے ۔پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہالْفَقْرُ لاَ یُحَتَاجُ اِلیٰ رَبِّہٖ وَلاَ اِلیٰ غَیْرِہٖ ( وہ نہ تو اپنے ربّ کے محتاج ہیں نہ ہی اس کے غیر کے) کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں ۔انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں ۔ان کا قدم تمام اولیاء اللہ غوث و قطب کے سر پر ہے ۔ اگر انہیں خدا کہا جا ئے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا کہا جائے تو بھی روا ہے ۔اس راز کو جس نے جانا اس نے ان کو پہچانا۔ اُن کا مقام حریمِ ذاتِ کبریا ہے ۔انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سراسیمہ ہو گئے اور کوہ طور پھٹ گیا تھا ہر لمحہ ہر پل جذباتِ انوارِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارِد ہوتی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ ھَلْ مِنْ مَّزِیْد مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں ۔وہ سلطان الفقر اور سیّد الکونین ہیں ۔(رسالہ روحی شریف)
یہ مبارک ارواح سات ہیں اِن کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یکے روحِ خاتونِ قیامت (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ، یکے روحِ خواجہ حسن بصری ( رضی اللہ عنہٗ)، یکے روحِ شیخِ ما حقیقت الحق، نورِ مطلق، مشہود علی الحق، حضرت سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی (رضی اللہ عنہٗ) و یکے روحِ سلطانِ انوار سِرُّ السرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزند حضرت پیر دستگیر (قدس سرِّہُ العزیز) و یکے روحِ چشمہ ءِ چشمانِ ھاھویت، سرِّ اسرارِ ذاتِ یَاھُو فنا فی ھُو فقیر باھُو (قدس اللہ سرُّہٗ) و دو روحِ دیگر اولیا۔ بحرمت ِ یمن ِ ایشاں قیامِ دارین۔ تا آنکہ آں دو روح از آشیانہءِ وحدت بر مظاہرِ کثرت نخواہند پرید، قیامِ قیامت نخواہد شد۔ سراسرنظرِ ایشاں نورِ وحدت و کیمیائے عزت بہرکس پرتو ءِ عنقائے ایشاں اُفتاد، نورِ مطلق ساختند، احتیاجے بریاضت و ورد اورادِ ظاہری طالبان را نہ پرداختند۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ: ان میں ایک خاتونِ قیامت( فاطمۃ الزہرا) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روح مبارک ہے ۔ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی روح مبارک ہے ۔ایک ہمارے شیخ ‘حقیقتِ حق ‘نورِ مطلق ‘ مشہود علی الحق حضرت سیّد محی الدین عبد القادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہٗ العزیز کی روح مبارک ہے ۔ اور ایک سلطان انوار سرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِحضرت پیر دستگیر( قدس سرہ’العزیز) کی روح مبارک ہے ایک ھاھویت کی آنکھوں کاچشمہ سِرّ اسرار ذاتِ یاھو فنا فی ھو فقیر باھوؒ (قدس سِرّہ العزیز ) کی روح مبارک ہے ۔اور دو ارواح دیگر اولیاء کی ہیں ۔اِن ارواح مقدسہ کی برکت وحرمت سے ہی دونوں جہان قائم ہیں ۔جب تک یہ دونوں ارواح وحدت کے آشیانہ سے نکل کر عالمِ کثرت میں نہیں آئیں گی قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ان کی نظر سراسر نورِوحدت اور کیمیا ئے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدہ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کر نے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو ۔انہیں طالبوں کو ظاہری ورد وظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے ۔(رسالہ روحی شریف)
ان سات ارواحِ سلطان الفقر ( shan-sultan-ul-faqr)میں سے پانچ ارواح کے ناموں کا انکشاف تو حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے فرما دیا ہے جو دنیا میں جلوہ گر ہو کر اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں کے لیے رحمت اور فیض کا موجب بنیں لیکن مستقبل میں آنے والی دو ارواح کے ناموں کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مخفی رکھا۔ ان میں سے ایک روح اور ہستی دنیا میں ظاہر ہو چکی ہے جس کی غلامی اور زیارت کا شرف اس زمانہ کے لوگوں کو حاصل ہوا۔ ان کا نام سلطان الفقر (ششم حضرت) سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ 14-اگست 1947ء (27رمضان المبارک 1366ھ) بروز جمعتہ المبارک کو اس عالمِ ناسوت میں جلوہ گر ہوئے اور 26دسمبر 2003ء (2ذیقعد 1424ھ) بروز جمعتہ المبارک کو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے وصال فرمایا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرتبۂ سلطان الفقر ک(shan-sultan-ul-faqr)ی بشارت بہت سے طالبانِ مولیٰ کو خواب میں دی گئی۔ اس کے علاوہ آپ رحمتہ اللہ علیہ میں ان تمام نشانیوں اور اوصاف کا موجود ہونا جن کا تذکرہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے رسالہ روحی شریف میں فرمایا ہے، بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی سلطان الفقر ششم کے مرتبہ پر فائز ہیں
ان سات ارواحِ سلطان الفقر (shan-sultan-ul-faqr)کا مرتبۂ کمال یہ ہے کہ یہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذاتی نور سے بلا واسطہ اس طرح تخلیق ہوئیں کہ وہ نور یعنی حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی اصل اور کامل صورت میں ان میں جلوہ گر ہوئی اور ازل تا ابد کبھی یہ نور ان سے جدا نہ ہوا۔ یہ ارواح اس نور میں اس قدر مستغرق اور شامل ہیں کہ شبِ معراج بھی یہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قطعاً جدا نہ ہوئیں حتیٰ کہ انہی کی باطنی رفاقت و روحانی ہمراہی میں ان کے ساتھ ہی معراج یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار و وصالِ کامل اور لقائے حقیقی کا شرف حاصل کیا۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنی دیگر تصانیف میں مرتبۂ سلطان الفقر کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ :
سلطان الفقر کی مجلس توحیدِ باری تعالیٰ کا ایک دریا ہے، جو کوئی اس دریا کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے وہ باوصال ہو جاتا ہے۔ محکم الفقراء
سلطان الفقر(shan-sultan-ul-faqr) کی ابتدا غیر مخلوق نورِ ایمان ہے اور اس کی انتہا غیر مخلوق نورِ ذاتِ رحمن ہے۔ قربِ دیدار
سلطان الفقر کا نور آفتاب سے زیادہ روشن اور اس کی خوشبو کستوری و گلاب و عنبر و عطر کی خوشبو سے زیادہ فرحت بخش ہے۔ جو شخص دورانِ خواب سلطان الفقر (shan-sultan-ul-faqr)کی زیارت کر لیتا ہے وہ ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس خوش نصیب کو باطن میں دستِ بیعت کر کے تلقین فرماتے ہیں، میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔ کلید التوحید کلاں
نوٹ:سلطان الفقر (shan-sultan-ul-faqr)کی شان , عظمت اور فضائل کے تفصیلی مطالعہ کے لیے، ملاحظہ کیجیے.