نورِ عین
تحریر: مسز انیلا یٰسین سروری قادری۔ لاہور
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ. (المائدہ۔15)
ترجمہ: اے لوگو! تحقیق تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک روشن کتاب آئی۔
جمہورمفسرین نے فرمایا ہے کہ یہاں ’’نور‘‘ سے مرادحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور کتاب سے مراد قرآنِ مجید ہے۔
پھرایک اور مقام پر فرمایاـ:
٭ترجمہ: اُس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اُس میں چراغ ہے ۔ چراغ فانوس میں ہے ۔ فانوس ایسے ہے کہ ایک موتی جو ستارے کی مانند چمکتا ہے ۔ یہ چراغ اس برکت والے پیڑ زیتون کے تیل سے روشن ہوتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی، قریب ہے کہ اُس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اُسے آگ بھی نہ چھوئے۔ نور پر نور چھایا ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس نور کی طرف اُسی کو ہدایت دیتا ہے جو اس کا طالب بنتا ہے۔(النور۔35)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں بھی ’’نور‘‘ سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور مبارک ہی ہے۔ حضرت کعب احبارؓ ان آیاتِ مقدسہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مثال بیان فرمائی ہے کہ طاق حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سینہ مبارک ہے ۔ فانوس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قلب مبارک ہے اور چراغِ نبوت کہ شجر ِ نبوت سے روشن ہے اور اس نورِ محمدی ؐ کی روشنی و ضیا اس مرتبہ ٔ کمال پر ظہور پذیر ہے کہ اگر آپؐ اپنے نبی ہونے کا اعلان بھی نہ فرمائیں تو تب بھی خلق پر ظاہر ہو جائے کہ آپ ؐ نبی ہیں۔‘‘
٭ پہلے مفسرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ان آیات مبارکہ کی تفسیر یوں بیان فرماتے ہیں ’’ طاق حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سینہ مبارک ہے اورفانوس آپؐ کا قلبِ اطہر ہے اور چراغ وہ نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا کہ وہ نہ شرقی ہے نہ غربی‘ ایک شجر ِمبارک سے روشن ہے، وہ شجر ِ مبارک حضرت ابراہیم ؑ ہیں ۔ نورِ قلب حضرت ابراہیم ؑ پر نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نور پر نور ہے۔‘‘
٭ الاحکام ابنِ القطان میں حضرت زین العابدین ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے والد محترم حضرت امام حسین ؓ اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں آدم ؑ کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا۔ (الاحکام ابنِ القطان)
وجودِکائنات میں سب سے افضل انسان ہے اور انسانوں میں سب سے اعلیٰ اور ارفع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ ازل تا ابد نہ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہمسر و ثانی ہے اور نہ ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے مظہرِاُتّم ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اللہ تعالیٰ کے خلیفہ برحق اور ذاتِ حق تعالیٰ کے حقیقی نور ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد آپ کے وسیلہ سے یہ مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائبین کوحاصل ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مبارک بھی ہے :
٭ میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نُور سے ہے۔
بے شک آقا پاک جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی حقیقی نُورِ عین ہیں اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی معرفت پا لیتا ہے وہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقی روحانی وارث اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عین (عکس) ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ ’’جب حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے چاہا ( کہ اس کی پہچان ہو اور اسے کوئی پہچاننے والا ہو) تو خود سے اسمِ ذات جدا کیا خود کو اسمِ اللہ ذات کی صورت میں ظاہر فرمایا اور اس سے نورِ محمدی کا ظہور ہوا اور قدرتِ توحید کے آئینہ میں (نُورِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ) دیکھا تو نورِ محمد کو دیکھتے ہی اپنے آپ پر (نُورِ محمدی کی صورت میں اپنے تعین پر) مشتاق، مائل و فریفتہ ہوا اور اپنی ہی بارگاہ سے ربّ الارباب حبیب اللہ کا خطاب پایا۔‘‘ (عین الفقر)
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؓ فرماتے ہیں:
٭ جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے روحِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے نُورِ جمال سے پیدا کیا جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے ’’میں نے روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے چہرے کے نُور سے پیدا فرمایا۔‘‘ (سرّ الاسرار)
اپنی ہستی کو بھول کر دیدارِ یار (دیدارِ الٰہی) میں غرق ہو جانا عارفین کا اعلیٰ مقام ہے ۔ جب طالب ِ مولیٰ ذکرو تصوراسمِ اللہ ذات میں اس قدر کامل ہوجائے کہ اس کی اپنی ہستی کو مقامِ فنا فی اللہ ، فنافی ھُو کی معراج نصیب ہوجائے تو وہ مکمل طور پر سراپا توحید بن جاتا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے :
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ۔
ترجمہ:جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے۔
جس پر فقر کی تکمیل ہو جاتی ہے اس کی اپنی ہستی مکمل طور پر فنا ہو جاتی ہے ۔ یہی نُورِ عین کا مقام ہے جہاں پربندے اور ربّ کے درمیان دوئی کا تصور بھی نہیں رہتا ، مَیں اور تُو کا فرق مٹ جاتا ہے ۔ جہاں بندۂ مومن کا بولنا اللہ کا بولنا، بندۂ مومن کا چلنا اللہ کا چلنا ،بندۂ مومن کا دیکھنا اللہ کا دیکھنا اور بندۂ مومن کا سننااللہ کا سننا بن جا تا ہے۔ بندۂ مومن کون ہے؟بندۂ مومن انسانی حقیقت کا ایسا عروج ہے جسے زوال نہیں، یہ فنا فی ھُو، وحدت، فنا فی اللہ بقا باللہ یا وصالِ الٰہی کا مقام ہے اور اس مقام پر بندۂ مومن ’’انسانِ کامل‘‘ یا ’’انسانِ مکمل‘‘ کہلاتا ہے۔انسانِ کامل کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
٭ چونکہ اللہ تعالیٰ کے نور مبارک سے جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک ظاہر ہواہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کا ظہور ہوا اس لئے انسان کی اصل نور ہے اور عمل کے مطابق جب نفس، قلب اور روح تینوں نور بن جاتے ہیں اس کو انسانِ کامل کہتے ہیں۔ (عقل ِ بیدار)
٭ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انسانِ کامل ہیں اور باقی لوگ حسب ِ مراتب تقریب رکھتے ہیں۔ (قربِ دیدار)
اقبال ؒ فرماتے ہیں:
ہاتھ ہے اللہ کا، بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کار کشا کار ساز
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی، اس کا دِل بے نیاز
انسانِ کامل صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے اور اس کا قلب نُورِ ذاتِ الٰہی سے منور ہوتا ہے اور یہی نُورِ الٰہی اس کی ذات ہوتا ہے ۔وہ نہ خدا ہوتا ہے نہ خدا سے جدا۔ انسانِ کامل سلطان الفقر ہوتا ہے جس کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھُوؒ فرماتے ہیں:
٭ ان کا قدم تمام اولیا اللہ اور غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا،اُن کا مقام حریم ِ ذاتِ کبریا ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
امیرخسروؒ فرماتے ہیں:
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جان شدی
تاکس نگوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
ترجمہ: میں تُو ہو گیا اور تُو میں ہو گیا میں جسم ہو گیا تو اس کی جان۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ہوں اور تُو اور۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ جب اس مقام پر پہنچے تو آپؒ نے رسالہ روحی شریف میں اس مقام کو یو ں بیان فرمایا:’’فقر کی منزل میں بارگاہِ کبریا (حق تعالیٰ ) سے حکم ہوا ’’تو ہمارا عاشق ہے‘‘ اس فقیر نے عرض کی ’’عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں ہے۔‘‘ فرمایا ’’تو ہمارا معشوق ہے۔‘‘یہ عاجز پھر خاموش ہو گیا تو حضرتِ کبریا کے انوارِ تجلّی کے فیض نے بندے کو ذرّے کی طرح استغراق کے سمندر میں مستغرق کر دیا اور فرمایا ’’تو ہماری ذات کی عین ہے اور ہم تمہاری عین ہیں،حقیقت میں تو ہماری حقیقت ہے اور معرفت میں ہمارا یار ہے اور ’’ھُو‘‘ میں ’’یاھُو‘‘ کا راز ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کا حقیقی روحانی سلسلہ سروری قادری ہے ۔سلسلہ سروری قادری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شروع ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے توسط سے حضرت خواجہ حسن بصری ؓ اور سلسلہ در سلسلہ سیّدنا غوث الاعظم حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ اور پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ تک پہنچتا ہے۔
موجودہ دور کے حقیقی سروری قادری فقیرِ کامل ، فقیر مالک الملکی جامع نور الہدی(انسانِ کامل،نائب ِ رسولؐ)سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔
حضرت سیّد عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی ؒ فرماتے ہیں:
٭ حقیقت ِ محمدیہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے اکمل کی صورت میں اُس زمانہ کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے یہ انسانِ کامل اپنے زمانے میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے۔(ترجمہ: فضل میراں ناشر نفیس اکیڈمی،کراچی)
سیّدنا غوث الاعظمؓ اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کے عین مطابق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس قدمِ محمد ؐ پر ہیں ۔آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کی تربیت بالکل اسی طرح فرماتے ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے صحابہ کرام ؓ کی فرمائی۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا طریقۂ تربیت کیا تھا ؟ آپؐ صحابہ کرامؓ کو نہ صرف قرآنِ مجید کی تعلیم دیتے بلکہ اپنی نگاہِ کامل سے ان اصحاب ؓ کے نفوس کا تزکیہ بھی فرماتے تھے جس سے ان کے باطن نورِ ایمان سے منور ہو گئے تھے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی نگاہِ فیض بھی ہو بہو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ کے اس فرمان کا مکمل اور جامع آئینہ ہے۔
٭ اِن کی نظر سراسر نُورِ وحدت اور کیمیائے عزت ہے جس طالب پر ان کی نگاہ پڑجاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کرنے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نُو ر بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری وردوظائف او ر چلّہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔ (رسالہ روحی شریف)
آپ مدظلہ الاقدس کی شانِ عظمت یہ ہے کہ آپ اپنے مریدین کو ورد و وظائف اور مشقت والے چلّوں میں ڈالے بغیر ہی اپنے کامل تصرف، نگاہِ کامل اور ذکروتصور اسمِ اللہ ذات سے پل بھر میں دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری عطا فرما دیتے ہیں۔
بیشک آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل اور ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات سے صرف صادق طالبانِ مولیٰ ہی مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ جاسوس اور منافق مرید کی طلب ہی ناقص دنیا ہوتی ہے اس لیے وہ محروم ہی رہتا ہے۔
پرتو ءِ خورشیدِشقت بر ہم تابد!
ولیکن سنگ بیک نوع نیست تا گوہر شوند
ترجمہ: سورج کی روشنی ہر ایک پتھر پر برابر پڑتی ہے مگر تمام پتھر ایک جیسے نہیں ہوتے کہ ہر ایک گوہر و لعل نہیں بن جاتے۔
پس ہر ایک کو اس کے دِل (باطن) میں موجود صدق کے مطابق فیض عطا ہوتا ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے کامل تصرف کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرونِ ملک مقیم طالبانِ مولیٰ بھی آپ مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ راہِ فقر کی منازل طے کرکے مجلس ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے فیض یاب ہو رہے ہیں ۔بے شک ’’عارف کامل قادری ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔‘‘(رسالہ روحی شریف)
ہر اِک زماں میں دار الشفا ہیں، مختارِ صدر الاولیا ہیں
ہر کی آن میں شان نیارا، سلطان محمد مرشد ہمارا
حدیث ِ قدسی ہے ’’میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جو میری قبا کے نیچے ہیں اور جن کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔‘‘
حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کی شانِ عظیم اور اعلیٰ ترین بلند روحانی مراتب کو مختصر الفاظ کا سہارا لیے محدود سطروں میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔آپ مدظلہ الاقدس کی حقیقی شان و مقام سے اللہ اور اُس کے پیارے محبوب جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی واقف ہیں۔
خودہی مصّور،خود ہی تصّور، خود ہی مُنور بصورتِ انسان
کمالِ الٰہی سارے کا سارا، سلطان محمد مرشد ہمارا
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی حیاتِ طیبہ اورآپ مدظلہ الاقدس کے اپنے مریدین پر بے بہا فیض کے بارے میں جاننے کے لیے ’’سلطان العاشقین ‘‘کتاب کا مطالعہ کریں یا درج ذیل ویب سائٹ کا وزٹ کریں:
urdu.sultan-ul-ashiqeen.com
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ اپنے پیا رے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیتؓ کے وسیلہ جمیلہ سے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی زندگی ،تندرستی اور سلامتی میں برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں آپ مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت نصیب ہو۔ آمین
استفادہ کتب:
عین الفقرتصنیف حضرت سخی سلطان باھُوؒ
رسالہ روحی شریف ایضاً
شمس الفقراتصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدسِ